PCB Logo

شاہین والا گرین بلیزر

گزشتہ ہفتے دفتر آئے کچھ مہمانوں کو  نیشنل کرکٹ اکیڈمی اور پاکستان کرکٹ بورڈ لائبریری و میوزیم دکھانے لے گیا۔ لائیبریری پہلے بھی ایک بار جانا ہوا تھا لیکن اس بار کا دورہ کافی مختلف  تھا، تب پہلی بار  اور ایک مداح کی حیثیت سے گیا تھا اس بار ایک گائیڈ کی حیثیت سے۔ نہرو کپ، 1997 کی ورلڈ سیریز کی ٹرافی، ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اور 1992 کے عالمی کپ کی زیارت کروانے کے بعد میں نے مہمانوں کی توجہ ایک کوٹ اسٹینڈ  کی جانب کروائی کہ جس پر ایک شاہین کے نشان والا گرین بلیزر سلیقے سے لٹک رہا ہے۔

کرکٹ سے بے حد دلچسپی رکھنے والے پاکستانی یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستا ن کرکٹ کے اولین سالوں میں پاکستان کی ٹیم کا نشان ستارہ نہیں بلکہ شاہین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میڈیا اپنے روز مرہ کے اصلوب میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے  شاہین اور پرواز وغیرہ سے متعلق استعارے استعمال کرتے ہیں۔

'یہ دیکھیئے ' میں  نے مہمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔، اور ان کو توجہ ملتے ہی بات جاری رکھی، 'یہ پاکستان ٹیم کے اولین سکواڈ کے رکن اور پہلے وکٹ کیپر امتیاز احمد صاحب کا بلیزر ہے۔ وہ جو سامنے دیوار پر تصویر لگی ہے نا اس میں دائیں جانب سب سے پہلے جو شخص کھڑے ہیں یہ ان کا بلیزر ہے اس تصویر میں موجود تمام ہستیوں میں یہ واحد ہیں جو ابھی بھی حیات ہیں۔  آج ہم سب صبح اظہر علی کی جانب سے جڑی ڈبل سینچری کی بات کر رہے تھے ، امتیاز احمد صاحب پاکستان کی جانب سے ڈبل سینچری کرنے والے سب سے پہلے کھلاڑی تھے۔'

میں نے ایک اچھے گائیڈ کی طرح تمام معلومات اپنی دانست کے مطابق ٹھیک ٹھیک فراہم کر دیں، جی وہ امتیاز احمد صاحب کا کوٹ تھا اور میں نے بڑے شوق سے اس کے بارے میں اپنے مہمانوں کو بتایا۔ پھر گزشتہ ہفتے فون ایک عدد ای میل کی نوٹیفیکیشن دینے کو بجا ابھی ای میل کھولنے ہی لگا تھا کہ فون پر کال آنا شروع ہو گئی دوسری جانب سے آواز نے کہا کہ ایک پریس ریلیز ویب سائیٹ پر لگانی ہے  اس کی سرخی بتا دیں میں نے کہا کہ باہر ہوں ابھی ای میل نہیں کھل رہی پریس ریلیز کس بارے میں ہے زبانی لکھوا دیتا ہوں۔ تو دوسری جانب سے سننے کو ملا کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر امتیاز احمد انتقال کر چکے ہیں اس پر تعزیتی  نوٹ ہے۔ سرخی لکھوائی  لیکن اچانک سے آن وارد ہوئے دکھ کے ساتھ الفاظ کیسے سوچے یہ ایک ناقابل بیان عمل تھا۔

فون بند کیا اور دل میں گزشتہ سال کو سلاواتیں سنائیں کہ جو جاتے جاتے اپنے آخری دن بھی ہم سے ایک اور ہیرا لے گیا۔ اب اگلی بار اگر کوئی لائبریری جائے گا تو اس آخری گرین بلیزر کا تعرف اب پہلے جیسا نہ رہے گا۔ پاکستان کے اولین ٹیسٹ ٹیم کے رکن اور وکٹ کیپر بلے باز امتیاز احمد مرحوم اب ہم میں نہیں لیکن ان کا وہ گرین بلیزر  دفتر کی جانب آتی راہ داری میں ان کی مسکراتی ہوئی تصویر ایک عمدہ، قابل فخر اور محب وطن کرکٹر کی  یاد دلاتی رہے گی۔

امتیاز احمد کے ٹیسٹ کیریئر پر ایک نظر:

امتیاز احمد مرحوم نے 1952 سے لے کر 1962 تک 41 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی تین سینچریز اور گیارہ نصف سینچریز کے ساتھ 2079 رنز اسکور کیا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور میں 1955 میں 209 رنز کی اننگز کی بہترین انفرادی اننگز تھی۔ بطور وکٹ کیپر 77 کیچ لیے اور 16 سٹمپ آوٹ کئے۔

امتیاز احمد 1976 سے 1978 تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر بھی رہے اور 2005 سے 2008 تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے وومن کرکٹ ونگ کے کنسلٹنٹ بھی رہے۔


 

Disclaimer: The views and opinions expressed in blogs are those of the authors and do not necessarily reflect the official policy or position of the Pakistan Cricket Board (PCB)