کرکٹ میرا اوڑھنا بچھونا ہے، ساری عمر کرکٹ سے جڑارہوں گا
- چیف سلیکٹر کی حیثیت سے کام کرنا میری زندگی کا مشکل ترین لمحہ تھا
- کرکٹر تنقید کا جواب گراونڈ میں دے سکتاہے مگر سلیکشن پر بے جا تنقید پرمیں بے بس رہا
- معائدے میں توسیع کا خواہشمند نہیں ہوں
تحریر: انضمام الحق، چیف سلیکٹر قومی کرکٹ ٹیم
میں نے تین سال سے زائد قومی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کی سربراہی کی۔ اب معاہدے میں مزید توسیع نہیں لینا چاہتا۔ قومی کرکٹ ٹیم کو رواں سال ستمبرمیں آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ اور پھر ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈکپ 2020ء میں شرکت کرنی ہے۔میرے خیال کے مطابق نئے چیف سلیکٹر کی تعیناتی کا یہ بہترین وقت ہے۔ گذشتہ ہفتے میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین احسان مانی اور منیجنگ ڈائریکٹر وسیم خان سےعلیحدہ علیحدہ را بطہ کرکے انہیں اپنے فیصلےکے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔ بطور چیف سلیکٹر ہمیشہ سپورٹ کرنے پر میں ان کا مشکور ہوں۔
کرکٹ میرا اوڑھنا بچھوناہے ۔میں نے ساری عمر کرکٹ کھیلی ہے ،ملک کے وقار اور عزت کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے اور مستقبل میں بھی کرکٹ کے ہی لیے کا م کرتا رہوں گا۔سال 2016ء میں مجھے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے چیف سلیکٹر کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کرکٹ ٹیم سے تجربہ کار کھلاڑی رخصت ہورہے تھے۔مئی 2017ء میں دونوں سینئر کھلاڑی ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔اب پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا تھا ۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ بطور چیف سلیکٹر یہ میری آزمائش ہے اور مجھے اس پر پورا اترنا ہے۔
جہاں تک بطور چیف سلیکٹر میری کارکردگی کی بات ہے تو وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میں نے اپریل 2016 ء میں قومی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کی سربراہی سنبھالی تو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی عالمی رینکنگ میں پاکستان ٹیسٹ فارمیٹ کی تیسری ٹیم تھی۔ عہدہ سنبھالتےہی بھانپ گیا تھا کہ ایسے نوجوان کرکٹرز کو تیار کرنا ہوگا جو مستقبل میں مصباح الحق اور یونس خان جیسے نامور کھلاڑیوں کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے مستقل رکن بن سکیں۔تاریخ کا حصہ ہے کہ ہم نے مصباح الحق کی قیادت میں ا یسی ٹیم کا انتخاب کیا جو آئی سی سی ٹیسٹ میس پاکستان لانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ باتیں بتانے کا مقصد اپنی تعریقیں بیان کرنا نہیں بلکہ حقیقت سامنے لانا ہے۔
ہم نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2017 ء کے لیے قومی ایک روزہ کرکٹ ٹیم کا انتخاب کیا تو ناقدین نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل یہ ٹیم دوسرے راونڈ میں کوالیفائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ المیہ یہ ہے کہ تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جب میں نے سلیکشن کمیٹی کی سربراہی کا عہدہ سنبھالا تھا تو پاکستان کرکٹ ٹیم آئی سی سی ایک روزہ کرکٹ رینکنگ میں نویں پوزیشن پر موجود تھی۔ مگر چیمپئنز ٹرافی میں شریک تمام کھلاڑی سلیکشن کمیٹی کے اعتماد پر پورا اترے جس کے بعد ہم نے انگلینڈ کی سرزمین پر آئی سی سی چیمپنز ٹرافی 2017 ء کی فاتح ٹیم کو ورلڈکپ 2019 ء کے لیے تیار کرنا شروع کردیا ۔
میں 120 ٹیسٹ ، 378 ایک روزہ اور 1 ٹی ٹونٹی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرچکا ہوں۔ میرے اس کرکٹ کیرئیر میں کئی اتار چڑھاؤ آئے مگرمیں نے مشکل وقت میں ہمیشہ خود پر تنقید کا جواب میدان میں کارکردگی دکھا کر دیا ۔ بطور چیف سلیکٹر میرے پاس یہ راستہ باقی نہیں رہا تھا۔ یہاں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہر ایونٹ کےلیے قومی کرکٹ ٹیم کا انتخاب ایک جامع اور منظم طریقہ کار سے کیا جاتا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی کھلاڑی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میرے تین سال سے زائداس دور میں مجموعی طور پر 26 کھلاڑیوں نےپاکستان کی جانب سے اپنا انٹرنیشنل ڈیبیو کیا۔ جس میں فخر زمان، فہیم اشرف، حسن علی، امام الحق، محمد عباس، شاداب خان، شاہین شاہ آفریدی اور عثمان شنواری کے نام شامل ہیں تاہم اس فہرست میں قابل ذکر نام بابر اعظم کا ہے جو اب تینوں فارمیٹ میں قومی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ لائن اپ کی ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔
تنقید کرنے والے 25 کھلاڑیوں کو چھوڑ کر ایک امام الحق کے انتخاب کو میرے سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ جتنا میں کرکٹ کو سمجھتا ہوں امام الحق کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ وہ پاکستان کے لیےایک مفید اوپنر ہیں۔ انہیں محض 36 ایک روزہ میچوں میں 50 رنز سے زائد کی اوسط رکھنے کے بعد بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ممکن ہے میں نے غیردانستہ طور پر کچھ باصلاحیت کرکٹرز کو نظر انداز کردیا ہو مگر میری نیت بالکل صاف تھی۔ میری ترجیح ہمیشہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم رہی ہے۔ میں نے قومی کرکٹ ٹیم کے انتخاب میں کبھی اپنی ذاتی پسند یا ناپسند کو اثرانداز نہیں ہونے دیا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے انتخاب کے دوران جب امام الحق کا نام پہلی بار آیاتھا تو میں اجلاس میں اپنی کرسی چھوڑ گیا تھا۔ پہلے بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور اور پھر ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے سلیکشن کمیٹی سےامام الحق کو ٹیم میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی۔ واضح کردوں سال 2012 ء میں امام الحق قومی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کا حصہ بنےاور پھر نائب کپتان بھی رہے، مگر اس وقت میرا سلیکشن کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بطور چیف سلیکٹر میری آخری اسائنمنٹ آئی سی سی کرکٹ2019ء کے لیے قومی ٹیم کا انتخاب کرنا تھا۔اس ٹیم کا انتخاب بھی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ہی کیا گیا تھا۔یوں کہہ لیجیئے کہ ہماری قسمت نے ساتھ نہیں دیااور قومی ٹیم رن ریٹ کی بنیاد پر سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ مگر یہ مت بھولیں کہ جب قومی کرکٹ ٹیم نے سرفراز احمد کی قیادت میں ورلڈ کپ میں شرکت کی اس وقت آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں ہم ساتویں پوزیشن پر تھے اور ورلڈ کپ کے اختتام پر پاکستان ایونٹ کی پانچویں بہترین ٹیم تھی۔قومی ٹیم نے ایونٹ کے پانچ میچوں میں فتح حاصل کی اور تین میچز میں شکست کھائی جبکہ سری لنکا کے ساتھ میچ بارش کے باعث ڈرا ہوگیا تھا۔
ورلڈکپ کے دوران پچزکی کنڈیشنز کو مدنظر رکھتے ہوئےمیں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس بہتر رہی۔ ماہرین نے پاکستان کو ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں میں شامل کیا تھا لیکن ٹورنامنٹ کے آخر میں وکٹیں مشکل ہو گئی تھیں جس کا اعتراف نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیم سن نے بھی کیا۔قومی کرکٹ ٹیم ورلڈکپ 2019ء میں محض نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر سیمی فائنل میں جگہ نہیں بنا سکی ۔ قومی کرکٹ ٹیم ایونٹ میں پانچ میچوں میں فتح، تین میں شکست اور ایک میچ ڈرا کرنے کے باعث 11 پوائنٹس حاصل کرنے کے باوجود نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر ایونٹ کے سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی نہیں کرسکی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے یہ پاکستان کی ٹیم ہے۔ ان لڑکوں کو مشکل وقت میں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنقید برائے اصلاح سے کوئی انکار نہیں کرتا مگر جس طرح کھلاڑیوں کو بھارت کے خلاف میچ ہارنے کے بعد تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس کی مذمت کرتا ہوں۔
میں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے انتخاب کی ذمہ داری سلیکشن کمیٹی کی ہےمگر فائنل الیون میں بھی چیف سلیکٹر کی رائے لی جاتی ہے ، تاہم فائنل الیون کے لیے چیف سلیکٹر کی رائے حتمی نہیں ہوتی۔ فائنل الیون کا انتخاب کرنا کوچ اور کپتان کی ذمہ داری ہے۔ مجھے پاکستان کرکٹ بورڈ نے بطور چیف سلیکٹرورلڈکپ 2019ء میں قومی کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینےکے لیے برطانیہ روانہ کیاتھا ۔
شعیب ملک گزشتہ تین سال سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے تھے جس کی بنیاد پر انہیں ورلڈکپ کے لیے قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کیا گیا۔ شعیب ملک 19 سال سے پاکستان کے لیے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک اچھے کھلاڑی ہیں لیکن بدقسمتی سےورلڈکپ میں پرفارم نہیں کر سکے ۔ محمد حفیظ بھی ورلڈکپ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ میں کسی کھلاڑی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں ، سینئر کھلاڑیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔
قومی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے تین سال سے زائد کام کے دوران مجھے فینز کی بڑی تعداد نے سپورٹ کیا۔ میں ان تمام فینز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے چیمپئنز ٹرافی کی فاتح قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا پرتپاک استقبال کیا اور جب مشکل وقت آیا تو یہ فینز ہی تھے جنہوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔ اب جب میرا معاہدہ ختم ہورہا ہے میری درخواست ہے کہ نئے چیف سلیکٹر پر تنقید کی بجائے انہیں سپورٹ کریں۔ ہمیں مشکلات میں اپنوں کا ساتھ دینے کا رواج اپنانا ہوگا۔